مقامِ
ملائکہ ۔ قرآن کریم کی روشنی میں
سائرہ طارق
https://www.pinterest.com/pin/406449935094208457/
ملائکہ
ملک کی جمع، فرشتے۔(۱)
فرشتے اللہ
تعالیٰ نور سے پیدا کی گئی مخلوق ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری ہے
اُسی طرح فرشتوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ جن و انس کی طرح فرشتے بھی اللہ
تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہ اُسی کام
میں لگےرہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمہ لگایا ہے۔
قرآن کریم
میں فرشتوں کا ذکر بارہا آیا ہے جس میں اُن کے مقامات کے ساتھ ساتھ اُن کی ذمہ
داریوں کا بھی ذکر ہے۔
ذیل میں مقامِ ملائکہ کا جائزہ قرآن
کریم کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ
وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ
لِّلْكٰفِرِيْنَ‘‘(۲)
(جو شخص اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کے
رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائل کا دشمن ہو۔ ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔)
مندرجہ
بالا آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیا علیہ السلام کے علاوہ تمام
فرشتوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے اور اللہ نے اس کے خلاف جانےو الوں کے
ساتھ کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کیا ہے۔
اللہ
تعالیٰ انسان کے ہر کام سے حتیٰ کہ اُس کےد ل میں آنے والے خیالات سے بھی واقف ہے
اور براہِ راست دیکھ بھی رہا ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ اللہ نے انسان کے ساتھ
نگران (فرشتے) بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اُس کی زندگی کا تمام ریکارڈ محفوظ رکھتے
ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ
يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ‘‘(۳)
(اُس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر
ہیں جو اللہ کے حکم سے اُس کی نگہبانی کرتے ہیں۔)
اللہ
تعالیٰ فرشتوں سے قاصد کا کام بھی لیتے ہیں جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت
محمدﷺ پر وحی لے کر آتے تھےاور جبرئیل علیہ السلام کے پر بھی تھے۔ اسی بات پر
روشنی قرآن کریم کی یہ آیتِ مبارکہ ڈالتی ہے:
’’اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَۃٍ
مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ اِنَّ اللہَ عَلٰي
كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ‘‘(۴)
(اُس اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جو
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں
کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے۔ مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے بے شک
اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔)
جو فرشے
آسمانوں پر اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور زمین پر موجود نیکوکاروں کے لیے دعائے
مغفرت بھی کرتے ہیں اُن کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح سے آتا ہے:
’’تَكَادُ السَّمٰوٰتُ
يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ
رَبِّہِمْ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَلَآ اِنَّ اللہَ ھُوَالْغَفُوْرُ
الرَّحِيْمُ‘‘(۵)
(قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور تمام
فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لیے
استغفار کر رہے ہیں خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے والا اور رحمت
والا ہے۔)
آیت
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے زمین پر جو بغاوت مچا رکھی ہے اُس پر آسمان
بھی پھٹ سکتا ہے۔ اس لیے فرشتے زمین پر بسنے والے انسانوں کے حق میں رحم کی
درخواست بھی کرتے ہیں تاکہ شاید خود فراموش اور خدا فراموش انسان شاید سنبھل
جائیں۔
مقامِ
ملائکہ کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ وہ انسانوں پر اللہ نے نگہبان کے طور
پر مقرر کر رکھے ہیں:
’’مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا
لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ‘‘(۶)
((انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا
مگر اُس کے پاس نگہبان تیار ہے۔)
آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نظر تو انسان کی حرکات و سکنات پر ہر وقت ہے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ اللہ نےانسانوں کی نگرانی و نگہبانی کے لیے فرشتے بھی مقرر کر
رکھے ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل
ریکارڈ تیار کرو ارہے ہیں۔
روزِ قیامت
انسان کا وہی ریکارڈ اُسی کے نگہبان کے ذریعے انسان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اس کی تائید میں قرآن پاک کی درج ذیل
آیت مبارکہ ہے:
’’وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا
سَاىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ‘‘(۷)
(اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اُس کے ساتھ
ایک لانے والا ہو گا اور ایک گواہی دینے والا۔)
اس آیت
مبارکہ میں لانے والے اور گواہی دینےوالے وہ فرشتے ہیں جو نگہبان کے طور پر انسان
کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔
قرآن پاک میں مزید ارشاد ہوتا ہے:
’’وَقَالَ قَرِيْنُہٗ ھٰذَا مَا
لَدَيَّ عَتِيْدٌ‘‘(۸)
(اور اُس کو ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر
ہے جو کہ میرے پاس تھا۔)
مندرجہ
بالا تمام آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا ہے کہ
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو اللہ کے حکم سے تمام کام سرانجام دیتے ہیں اور انسان کے تمام اعمال کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں اور روزِ آخرت وہ انسان کے تمام اعمال کا ریکارڈ پیش کر دیں گے۔ ’’عِلِّيِّيْنَ‘‘ وہ ڈائری ہے جس میں نیکوکاروں کے اعمال کا ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔ اور ’’سِجِّيْنٍ‘‘ وہ لکھا ہوا ہے دفتر ہے جس میں گناہگاروں کے اعمال کو لکھا جاتا ہے۔ (بحوالہ سورہ المطففین آیات ۷، ۹) اور آج کل جدید ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی کر لی ہے تو یہ بات ایک عام انسان کی سمجھ میں بھی آسکتی ہے کہ فرشتوں کے لیے اس دفتر کو تیار کرنا کتنا آسان کام ہوگا۔ فرشتے اپنے تمام کاموں و ذمہ داریوں کو اللہ کے حکم کے مطابق احسن طریقہ سے سرانجام دے رہے ہیں او رتمام آسمانی کتابوں میں فرشتوں کا ذکر موجود ہے۔
حوالہ جات
۱۔
فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اُرد و(جامع)، لاہور: فیروز سنز، س ن، ص:۱۲۸۲
۲۔ سورہ
البقرہ:۹۸
۳۔ سورہ
الرعد:۱۱
۴۔ سورہ
فاطر: ۰۱
۵۔ سورہ
الشوری: ۰۵
۶۔ سورہ
ق: ۱۸
۷۔ سورہ
ق: ۲۱
۸۔ سورہ
ق:۲۳
Good information for all ages .nice thinking and excellent work
ReplyDeleteI hope you will write more and I am waiting .
ReplyDeleteThis will help me in my studies. Thanks😊
ReplyDeleteWelldone sairaaa 👍👍 u did a great work👌👌
ReplyDeleteMashAllah g
ReplyDeleteGreat work
Informative....
ReplyDeleteMasha Allah
ReplyDeleteGood work
MashaAllah ♥️....
ReplyDeleteExcellent work 😇...
I need this data
ReplyDeleteGood job .nice work .MASHALLAH
ReplyDelete