کرونا وائرس کا سستا، آسان اور نقل پزیر تشخیصی طریقہ کار


کرونا وائرس   کا  سستا، آسان اور نقل پزیر تشخیصی طریقہ کار
دسمبر ٢٠١٩ میں نئے کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی بیماری COVID-19 کی وباء  کا آغاز چائنہ کے شہر ووہان سے ہوا تھا۔ جس کے بعد  سائنسی برادری نے   مریضوں میں اس بیماری کی وجہ بننے والے جرثومے (مرضِ زا یا روگجن) کا پتہ لگانے کے تیز، قابلِ اعتماد اور سستے طریقے تلاش کرنے کیلے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ابھی تک سائنسی اور تشخیصی برادری انتہائی قابل اعتماد لیکن مہنگے اور وسائل کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت لینے والے طریقہ پرمکمل طور پر منحصر ہیں۔ جو کہ ریئل ٹائم پولیمریز چین ری ایکشن  (RT-PCR)کہلاتا ہے۔جرثومے ( پیتھوجین) کا پتہ لگانے کے تیز، نقل پزیر (پورٹیبل) اور سستے ترین طریقے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سائنسدانوں کے ایک گروہ نے ایک نقل پزیر آلہ تیار کیا ہے۔ اس آلے نے جرثومے کی شناخت کرنے میں   بہت حد تک  آسانی پیدا کر دی  ہے۔
  شعبہ برقی اور کمپیوٹر انجینئرنگ کے پروفیسر برائن کننگھم اور شعبہ بائیو انجینیئرنگ کے  پروفیسر راشد بشیر  ریاستہائے متحدہ امریکہ میں الینوائے یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں سائنسدانوں  نے اس تحقیق کی سربراہی  کی اور اپنے اس مطالعہ کو لیب آن چپ (Lab on Chipجریدے میں شائع بھی کیا۔ اس مطالعہ میں  سائنسدانوں نے تیز رفتار  اسمارٹ فون پر مبنی ایک آلہ تیار کیا ہے جو وراثتی مادے کی بڑی آسانی سے جانچ کر سکتا ہے۔ وراثتی مادے کو سائنسی زبان میں  ڈی آکسی رائبونیوکلیئک ایسڈ (DNA) کہتے ہیں۔ یہ آلہ صرف ٣٠ منٹ کے اندر اندر موزوں انداز میں وہی ٹیسٹ سر انجام دیتا ہے جو پی سی آر مشینوں میں زیادہ وقت میں ہوتا  ہے۔ یہ سارا عمل بہت مضبوط اور تیز ہے جس میں صرف ایک گھنٹہ یا اس سے بھی کم وقت لگتا ہے۔  اس آلے میں ایک  اسمارٹ فون کا  سافٹ وئیر   بھی استعمال ہوتا ہے جس  میں تمام نتائج پیش کیئے جاتے ہیں۔
اس سمارٹ فون پر مبنی آلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ریئل ٹائم پی سی آر (RT-PCR) کے اصول کار پر حقیقی نگاہ ڈالینا آپ سب کے لیئے بہت ضروری ہے۔
 ریئل ٹائم پی سی آر  RT-PCR کے کام کرنے کا اصول
ریئل ٹائم پی سی آر (RT-PCR) روایتی پی سی آر (PCR)  کی   ایک مختلف شکل ہے اور اس کا طریقہ کار ایک سے زیادہ مراحل پر مشتمل ہے۔ ریئل ٹائم پی سی آر ڈی این اے یا  رائبو نیوکلیئک ایسڈ (RNA) دونوں سے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سب سے بہتر نتائج کیلئے ریئل ٹائم پی سی آر، آر این اے کے ذریعے کیا جاتا ہے جسکے دو اہم مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے  میں ناک، گلے  یا خون سے حاصل کردہ نمونوں میں سے آر این اے نکالا جاتا ہے اور پھراسی  آر این اے کو ڈی این اے کی دوسری شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے جو تکمیلی ڈی این اے (cDNA) کہلاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں تکمیلی ڈی این اے کو مختلف درجہ حرارت پر بار بار  گرم اور ٹھنڈا کرنے کے  مراحل سے گزارا  جاتا ہے جس میں ڈی این اے کے ٹکڑے (نسبہ یا جین) کی تعداد کو بڑھایا جاتا ہے۔جن کی تعداد RT-PCR نظام  کے ذریعے ڈی این اے کے ساتھ جڑ کر  مخصوص رنگ دینے والے مادے (سائبرگرین) کے  رنگ کی تشخیص کر کے نکالی جاری ہے۔   RT-PCR نظام   کے ساتھ ایک کمپیوٹر بھی جڑا ہوتا ہے اور تمام نتائج اس کمپیوٹر میں ظاہر ہوتے ہیں۔
اسمارٹ فون پر مبنی آلے کے کام کرنے کا اصول
اسمارٹ فون پر مبنی آلہ ناک، گلے یا خون سے حاصل کردہ نمونوں سے نکلے ڈی این اے کے ٹکڑوں کو بڑھانے کے لئے پی سی آر سے تھوڑا  مختلف طریقہ کار استعمال کرتا ہے۔ اس آلے میں حاصل کردہ نمونوں سے ڈی این اے  نکالنے اور پھر  ڈی این اے   کے ٹکڑوں کو بڑھانے کے لئے تمام ضروری کیمیائی مادے ڈالے جاتے ہیں۔ آلے میں  نمونے میں سے  ڈی این اے  نکالا جاتا ہے  اور پھر اس ڈی این اے کے ٹکڑے  (نسبہ یا جین کی تعدار بڑھانے کیلئے ایک مخصوص درجہ حرارت  ٦٠-٦٥ ڈگری سیلسیئس پر تقریبا ٣٠ منٹ تک  گرم کیا جاتا ہے۔ اس آلے میں بھی ڈی این اے کے ساتھ جڑ کر مخصوص رنگ دینے والے مادے (سائبرگرین) کا استعمال کیا جاتا ہے۔  نسبوں یا Genes کی تعداد معلوم کرنے اور  سائبرگرین کے  رنگ کی تشخیص کیلئے   اسمارٹ فون  میں  ایک  سافٹ ویئر یا ایپلیکیشن کا استعمال کیا جاتا  ہے۔ تمام نتائج سمارٹ فون میں ہی ظاہر ہوتے ہیں  اور ان کو دوسروں  تک پہنچانا آسان ہو جاتا ہے۔ 
آئیسوڈرمل اپروچ  یا ایک مخصوص درجہ حرارت کا استعمال  کرنے کا مقصد بار بار گرم اور ٹھنڈا کرنے والے مرحلے سے بچنا، وقت اور وسائل کی بچت کرنا ہے۔  جبکہ اسمارٹ فون کو اس مطالعہ میں شامل کرنے کا مقصد  جرثومے یا مرضِ زا کا جلدازجلد پتہ لگانا، ریئل ٹائم پی سی آر نِظام کے مقابلے میں آلے کوسستا، نقل پزیر (پورٹیبل) اور استعمال کے لئے آسان  بنانا تھا۔ ریئل ٹائم پی سی آر کے پورے   نِظام کی لاگت  پاکستان میں تقریباََ ٣٥-٤٠ لاکھ کے قریب ہے۔ جب کے سمارٹ فون پر مبنی  نِظام  انتہائی سستا، تیز اور نقل پزیر ثابت ہوگا۔
موجودہ مطالعے کا مقصد
اس مطالعے کا مقصد گھوڑوں کی سانس کی بیماری کے وائرل اور بیکٹیریل  وراثتی مادے (ڈی این اے) کا پتہ لگانا تھا۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ یہ جرثومے یا مرضِ زا صرف گھوڑوں میں ہی سانس کی شدید بیماری کا سبب بنتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے یہ انسانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں۔ اس ٹیم نے گھوڑوں کے ناک جھاڑو  یا ناک سے حاصل کردہ نمونے کا استعمال کرتے ہوئے طبی طور پر منظور شدہ حدود میں جرثوموں کے ڈی این اے کے ٹکڑے (نسبہ یا جین) کی تعداد  کو کامیابی کے ساتھ بڑھایا  اور ان کا پتہ لگایا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ طریقہ کار کچھ اہم ترامیم کے ساتھ COVID-19 وراثتی مادے (آر این اے)   کی تشخیص کرنے کیلئے بھی ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ طریقہ کار متعدد نسبوں یا جینز کی  تعداد ایک ساتھ بڑھا  سکتا ہے، لہذا  ایک ہی وقت میں متعدد جرثوموں  کی شناخت  بھی کی جا سکتی ہے جو کہ بالآخر اس تشخیصی طریقہ کار کی طاقت کو بڑھا دے گا۔
اس ماڈل سے معاشرے کوکس طرح   فائدہ ہوسکتا ہے؟
یہ آلہ چونکہ اسمارٹ فونز کے کیمرہ پر بھی نصب  کیا جاسکتا ہے اور  نمونے کی جانچ کے لئے ناک، گلے  یا خون  سے حاصل کردہ نمونے آلے میں باآسانی داخل ہوسکتے ہیں۔لہذا  یہ طریقہ کار انتہائی آسان اور سستا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مفید بھی ثابت ہو سکتا  ہے۔اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے یہ بڑی آسانی سے تجویز کیا جاسکتا ہے کہ  کس کو  ابھی معاشرے  سے الگ رکھنا چاہئے یا کچھ احتیاطی تدابیر کے ساتھ معاشرے میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔اس کے علاوہ یہ  متعدد موقعوں پر بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے، جیسےکہ ہوائی اڈوں پر لوگوں کو  جانچ کر یہ فیصلہ کرنا کہ کسی کو  پرواز کی اجازت دی جانی چاہئے یا نہیں۔جرثومے کی موجودگی کے منفی نتائج لوگوں  کو مطالعاتی، ادبی اجلاس یا کسی محفل  وغیرہ میں شامل ہونے کی اجازت دینے کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔
چونکہ یہ طریقہ کار اسمارٹ فون کا استعمال کرتا ہے، لہذا اس کے نتائج کا  حکومتی اداروں یا پالیسی سازوں کے ساتھ باآسانی اشتراک کیا  جاسکتا  ہے تاکہ بروقت لوگوں کی رہنمائی کی جا سکے کہ آئندہ کیا لائحہ عمل اپنایا جائے؟ یہ قرنطینہ یا طبی قید  کے دوران اپنی COVID-19 کی جانچ میں بھی بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ جانچ کے لئے کلینیکل لیبارٹری میں نمونے بھیجنے کی بجائے ڈاکٹر کو ٹیسٹ کے نتائج بھیج کر مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے COVID-19 جانچ کی لاگت میں کمی، وقت کی بچت اور معاشرتی دوری کے ساتھ ساتھ بیماری کے پھیلاؤ میں کمی بھی واقع ہوگی۔
خلاصہ
مجموعی طور پر یہ طریقہ کار اس وقت COVID-19 کی  جانچ کیلئے بہترین حل پیش کرتا ہے۔ابھی  اس آلہ میں انسانی طبی نمونوں میں COVID-19 کی جانچ کے لئے کچھ کیمیائی مادوں  یا ترتیبات کا فقدان ہے۔ چونکہ SARS-CoV-2 کا وراثتی مادہ آر این اے سے بنا ہوا ہے، لہذا ریئل ٹائم پی سی آر کرنے سے پہلے آر این اے  کو تکمیلی ڈی این اے (cDNA)  میں تبدیل کرنا ہوگا۔لہذا سائنسدان اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں کہ یہ آلہ  COVID-19 کی جانچ کیلئے جلدازجلد بنایا جاسکے اور اس میں آر این اے کو تکمیلی ڈی این اے (cDNA) میں تبدیل کرنے،  نسبوں یا جینز  کی تعداد کو بڑھانے اور جانچنے کیلئے تمام ضروری کیمیائی مادے موجود  ہوں۔
مصنف کی معلومات
محمد نعمان نے اس سائنسی اشاعت کا خلاصہ تحریر کیا ہے۔
 حوالہ:اصلی اور مکمل  مطالعاتی مقالہ پڑھنے کیلئے نیلے رنگ کے  (Lab on Chip) کو دبائیں۔
اگر آپ اس خلاصے کو انگریزی زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو سائنسی ادبی لائبریری-پاکستان (پی ایل او ایس ایل-پاک)  کی ویب  سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔  یا پھر نیلےرنگ کے لفظ"انگریزی زبان" کو دبائیں۔
 آپ کو ہماری تحریر اچھی لگے تو ہماری ویب سائٹ پر  جا کر ضرور سبسکرائب کریں اور  اپنی رائے کا اظہار کریں۔

Comments

Post a Comment