ملیریا کی آگہی: ملیریا کا عالمی دن


ملیریا کی آگہی: ملیریا کا عالمی دن
ملیریا ایک سنگین اور خطرناک بیماری ہے جوکہ ایک پرجیوی(پیراسائٹ) پلازموڈیم کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہ ایک متاثرہ مادہ مچھر(انوفیلیز) کےکاٹنے سے انسانوں میں پھیلتی ہے۔ویسے تو ان پرجیووں کی بہت سی اقسام ہیں لیکن چار مختلف قسم کے ملیریاکے پرجیوی ہیں جو انسانوںکوحیران کن طورپرمتاثرکرسکتے ہیں۔ ہر ایک   پلازموڈیم کے دو سائنسی نام ہوتے ہیں۔چار مشہور پرجیووں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔   پلازموڈیم  فالسیپیرم ، پلازموڈیم  ملیریا ،پلازموڈیم  اوول اورپلازموڈیم  ویویکس اور ان میں سے پلازموڈیم  فالسیپیرم ملیریا کی سب زیادہ شدید قسم کا سبب بنتا ہے اورآخرکار موت کا باعث بنتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیوایچ او) کی رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہےکہ سنہ٢٠١٨ میں صرف  ملیریاسے ٢٢کروڑ٨٠ لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھےاور٤ لاکھ پانچ ہزارافراد ملیریا سےمرگئےتھےجن میںزیادہ تر افریقہ میں رہنے والے بچے تھے۔
ملیریا کہاں کہاں پایا جاتا ہے؟
ملیریا عام طور پرگرم علاقوں میں موجود ہوتا ہے اور زیادہ درجہ حرارت مچھروںکو بہترنشوونماکرنے میں مدد کرتا ہے۔ ملیریاتقریباََ ایک سو سے زائدممالک اورعلاقوں میں موجود ہے۔ دنیا کی تقریباََ نصف  آبادی کو ملیریا کا خطرہ ہے۔ یہ افریقہ،جنوبی ایشیاء،  کیریبین، مشرقِ وسطیٰ، وسطی اورجنوبی امریکہ کے کچھ حصوں کے علاوہ اوشیانا میں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔
پلازموڈیم لوگوںکو کیسے  متاثر کرتا ہے؟ 
جب متاثرہ مادہ مچھر(اینوفیلیز) انسان کو کاٹتی ہےتو پلازموڈیم یہ انسان میںمنتقل ہوجاتا ہے۔ ملیریا کے بارے میں مزیدجاننے سے پہلےآپکو یہبھی سیکھ لینا چاہئےکہکوئی شخص ملیریا سے کیسے متاثر ہوتا ہے تو پھر اس کےجسم  میں  کیا ہوتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ پلازموڈیم کے نظامِ زندگی کے بارے میں مزید جاننا  پسندکریں گے۔ تو چلیں مِلکر جانتے ہیں کہ ہمارےجسم کے اندر پلازموڈیم کیا کرتے ہیں؟
پلازموڈیم کا نظامِ زندگی 
عام طور پر جب متاثرہ مادہ مچھر (اینوفیلیزکسیشخص  کو کاٹتا ہے حقیقت میں اس شخص کے خون کو پی کر اپنی بھوک مٹاتاہے۔ خون پینے کےعمل کے دوران مچھر انسان کے خون میںتھوڑی سی مقدار میں اپنا لعبِ دہن شامل کر دیتا ہے جس میںملیریا کی وجہ بننے والا  پرجیوی (پلازموڈیم) موجود ہوتا ہے۔جسم کے اندر داخلے کے بعد  نوزائدہ  پلازموڈیم   جگر میں  جاتے ہیں  جہاں  وہ زندگی کے  دورکو مکمل کرنے کیلئے خود کو پختہ کرتے ہیں۔ کئی دنوں کے بعد پختہ پلازموڈیم ایک بار پھر  متاثرہ شخص کے خون میں داخل ہوتا جاتا ہے اور خون کے سرخ خلیوں (آر بی سی) کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ پھٹ کرکُھل جاتے ہیں۔ پلازموڈیم  مزیدآر بیسی کو متاثر کرتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہتا ہے۔
پلازموڈیم  کیسے پھیلتا ہے؟ 
ملیریا کوئی متعدی بیماری نہیں ہے۔جس کا مطلب ہےکہ یہ ایک شخص سے دوسرے میں نہیں پھیلتا ہے۔عام طور پر ملیریا ایک متاثرہ مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پلازموڈیم آر بی سی میں موجود ہوتا ہے لہذا یہ خون کیتبدیلی یا منتقلی، مختلف اعضاء کی پیوند کاری، ملیریا سے متاثرہ شخص کے خون سے آلودہ سوئیاں یا سرِنجوں کے مشترکہ استعمال سے بھی پھیلسکتا ہے۔ کچھ معاملات میں ملیریا پیدائشی بھی ہوسکتا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ یہ ماں سے پیدائشی طور پر بچوں  میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ملیریا کی  علامات
متاثر ہونے کے بعد ١٠ دن سےلےکر٤ ہفتوں کے اندر ملیریا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ پلازموڈیم خود کو  تقریباََ ١یک سے چار سال تک بغیر کوئی  بیماری کی علامات ظاہر کیے بغیر خودکوغیرفعال کر کے جسم میں رکھ سکتا ہے۔ ملیریا کی علامات میں بخار، سردی سے لرزہ، سر درد، پٹھوں میں درد، تھکاوٹ، فلو جیسی بیماری، متلی اور اسہال شامل ہیں۔ ملیریا کی وجہ سے چونکہ بہت سارے آر بی سی ٹوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یرقان (ایسی حالت جس میں جِلد پیلی یا زرد ہو جاتی ہے) بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ملیریا کا صحیح علاج نہ کیا جائے تو یہ اعضاء کی متعدد ناکامیوں کا باعث، ذہنی الجھن، سانس لینے میں دشواری، بے ہوشی اور بالآخرموت کا سبب  بن سکتا ہے۔
 ملیریا کی جان لیوا پیچیدگیاں
ملیریا جان لیوا پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنسکتا ہے جن میں دماغ  کی خون کی  رگوں میںسوجن   (دماغیملیریا)، پھیپھڑوں میں سیال مادہ کا جمع ہونا  (پلمونری ورمجو کہسانس لینے میں دشواری کا باعث بنتا ہے، گردے، جگر یا تِلی کا ناکارہ ہو جانا بھی شامل ہیں۔
ملیریا کی تشخیص
الف۔ عام علامات:   ملیریا کا اندازہ  مندرجہ بالا عام علامات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
ب۔ خوردبینی معائنہ: ملیریا کی تشخیص  کیلئے متاثرہ شخص کے خون کا ایک قطرہ لے کر اس کا خوردبینی معائنہ کر کے  بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
پ۔ مناعیاتی مائجن (امیونوجیکل-اینٹی جن) کی موجودگی: ملیریا کی سب سے میعاری اورمستندتشخیص  متاثرہ شخص کے خون میں مناعیاتی مائجن یا  اینٹی جن  کی موجودگی کا پتہ چلا  کر بھی کی کا سکتی ہے۔ اس کے لیے  ڈِپسٹک یا کیسٹ کے طریقے سے تشخیص کرنا آجکل بہت ہی عام طریقہ ہے جوصرف  ١٥ منٹ میں آپ کو نتائج پیش کر دیتا ہے۔
ملیریا سے بچاؤ کیسے ممکن؟
اگرچہ ملیریا مہلک بیماری ہے لیکن ملیریا سے ہونے والی بیماری کو عام طورپرمندرجہ ذیل اقدام سے روکا جاسکتا ہے
الف۔پرجیویوں کو مارنے کے لئے اینٹی ملیریل دوائی لینے سے
ب۔ مچھروں کوآپکو کاٹنے سے دور رکھیں خاص طور پر رات کے وقت 
پ۔کیڑے مار دوا سےچھڑکاؤ کیئے  جالی والے بستر استعمال سے
ت۔ مچھروں کو دور بھگانے والے لوشن یا محلول کا  استعمال کرنے سے اور 

ملیریا کے خلاف کچھ مؤثر ادویات کے نام  کلوروکوین، میفلوکوین، پرائماکوین اورٹفینوکوین ہیں۔ہم آپکو مندرجہ بالا تمام ادویات کے استعمال کرنے کی سفارش نہیں کرتے البتہ اگر آپ میں ملیریا کی کوئی علاما ت ظاہرہوں تو آپ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
ملیریا کے خلاف  ادویات (ویکسین)
چونکہ ملیریا سے لڑنے کے دیگر تمام طریقے، بشمول کھانے والی  ادویات، کیڑے مار ادویات، اور کیڑے مار   ادویات سے چھڑکائے ہوئے جالی والے بستربھی اس بیماری کوختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تاہم پوری دنیا کے سائنس دان ملیریا کے خلاف ایک مؤثر ویکسین (دوائی یا ٹیکہ) تیارکرنے میں سرگرم ہیں اور کچھ ادویات کی ملیریا کے خلاف آزمائشیں بھی جاری ہیں۔ ملیریا پرجیوی کیونکہ ایک پیچیدہ جاندار ہے جس کی زندگی کی جانچ پڑتال ابھی تک مکمل طور پر نہیں ہوسکی۔ یہ انسانی مدافعتی نظام سے اس وجہ سے بھی بچ جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے دورِ زندگی مین اپنی سطح کومستقل تبدیل کرتا  رہتاہے۔ لہذا ان مختلف سطحوں کے خلاف ویکسین تیار کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ سائنسدان ابھی تک اُن انسانی مدافعتی پیچیدہ ردِعمل کو مکمل طور پر سمجھنےسےقاصر ہیں جو انسانوں کو ملیریا سے بچاتے ہیں۔
مصنفین: ایم۔صدیق ارو محمد نعمان نے  یہ مضمون لکھا اور اس میں مختلف ترامیم کیں۔
حوالہ جات: تمام  حوالہ جات کے  ویب اڈریسز اس مضمون کے انگریزی ترجمہ میں ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔  یہی مضمون انگریزی میں پڑھنے کیلئے نیلے رنگ کے لفظ  انگریزی  کو دبائیں۔
اگر آپ اسطرح کے اور خلاصے  پڑھنا چاہتے ہیں تو سائنسی ادبی لائبریری-پاکستان (پی ایل او ایس ایل-پاک)  کی ویب  سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔

 آپ کو ہماری تحریر اچھی لگے تو ہماری ویب سائٹ پر  جا کر ضرور سبسکرائب کریں اور  اپنی رائے کا اظہار کریں۔

Comments